محمد کی محبت دین حق کی شرط اوّل ہے

رسول کریم علیہ التحیة والتسلیم کو چاہنا ایمان ہے اور سب سے زیادہ چاہنا کمال ایمان ہے جیسا کہ اللہ کے رسول کا فرمان ہے.

 ﻋَﻦْ ﺃَﻧَﺲٍ ﺭَﺿِﻲَ ﺍﻟﻠّﻪ ﻋَﻨْﻪُ ﻋَﻦِ ﺍﻟﻨَّﺒِﻲِّ ﺻَﻠَّﻰ ﺍﻟﻠّﻪ ﻋَﻠَﻴْﻪِ

ﻭَﺳَﻠَّﻢَ ﻗﺎﻝ : ” ﻻ ﻳُﺆْﻣِﻦُ ﺃَﺣَﺪُﻛُﻢْ ﺣَﺘَّﻰ ﺃَﻛﻮﻥَ ﺃﺣَﺐَّ ﺇِﻟَﻴْﻪِ ﻣِﻦْ ﻭَﺍﻟِﺪِﻩِ

ﻭَﻭَﻟَﺪِﻩ ﻭَﺍﻟﻨَّﺎﺱِ ﺃَﺟْﻤَﻌﻴﻦَ “. ‏(ﻣﺘﻔﻖ ﻋﻠﻴﻪ)

 کامل ایمان والا ہونا اسی وقت ممکن ہے جب آپ والدین اولاد تمام لوگوں سے زیادہ اللہ کے رسول سے محبت کرنے لگیں . اور

یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ ابجد کے حساب سے ایمان کا جو عدد ہے وہی عدد “حب محمد” صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی ہے:  ایمان کا عدد ہے ایک سو دو 102 اور یہی عدد “حب محمد” صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا بھی ہے .

یوں ہی یہ اتفاق بھی قابل دید ہے کہ جو عدد کفر کا ہے 300 وہی عدد  “ھجر محمد” صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ہے .  یعنی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے بے تعلق ہونا ہی کفر ہے.

الغرض نبی کی محبت ہی ایمان ہے اور ایمان ہی نبی کی محبت ہے. لہذا وہ جھوٹے ہیں جو ایمان  کے مدعی ہیں لیکن  نبی کی محبت سے خالی  ہیں.   اور یہ بھی ایک واضح حقیقت ہے کہ رب تعالی نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق اور بے تعلق کو خد اپنے سے تعلق اور بے تعلق پیدا کرنے کا معیار قرار دیا ہے.

“مَنۡ یُّطِعِ الرَّسُوۡلَ فَقَدۡ اَطَاعَ اللّٰہَ

جس نے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حکم مانا بیشک اس نے اللہ (ہی) کا حکم مانا،  [4:80] النِّسَآء

جس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ نبی کریم سے ایمانی تعلق پیدا کئے بغیر رب تعالی سے تعلق پیدا کرنا محالات عقل و خرد سے.  یہ کبھی ممکن ہی نہی اس لیئے رب تعالی جسے اپنا بنانا چاہتا ہے پہلے اسے اپنے حبیب کا بنا دیتا ہے اور جسے اپنے سے دور رکھنا چاہتا ہے اسے اپنے سے درو رکھتا ہے.

محمد کی محبت دین حق کی شرط اول ہے .

اسی میں ہو اگر خامی تو سب کچھ نامکمل ہے.